الجمعة، 01 ربيع الثاني 1446| 2024/10/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

غزہ کی جنگ ختم ہونے کے بعد تجویز کردہ مختلف حل

 

)ترجمہ)

 

سوال :

 

جیسا کہ یہودی وجود کی جانب سے برپا کی گئی نسل کشی کی جنگ، مغربی امریکہ کے اکسانے اور حمایت کے ساتھ غزہ کے لوگوں کے خلاف مسلسل پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری ہے اور زخمیوں اور شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، عمومی تباہی کے ساتھ بہت سی عمارتوں کا مسمار ہونا اس کے علاوہ ہے، تو اب اس صورتحال پر بہت سے مباحثہ جات ہو رہے ہیں کہ جنگ کے بعد اس صورتحال کے حل کے لیے کیا پراجیکٹس ہوں گے اور امریکہ کی قیادت میں استعماری ممالک کے منصوبوں کے مطابق سیاسی طور پر کیا چیزیں سامنے آ سکتی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ ان منصوبوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مغربی کنارہ جوں کا توں رہے گا اور غزہ پر فوجی قبضہ ہو جائے گا؟ یا یہ کہ مغربی کنارے اور غزہ کو ایک غیر مسلح ریاست کی شکل دے دی جائے گی ؟ یا پھر یہ کہ مغربی کنارہ ایسے ہی رہے گا اور بقیہ غزہ بین الاقوامی و عرب انتظامیہ یا پھر خود مغربی کنارے کی طرح اپنی انتظامیہ کے تحت ہو گا؟ اس کا درست حل کیا ہے؟

 

براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں، شکریہ

 

 

جواب:

 

سوال کے جواب سے پہلے، درج ذیل نکات کو واضح کرنا ضروری ہے:

 

اول : سرزمین فلسطین کے بارے میں چند اہم باتیں:

1۔ ہم جانتے ہیں کہ برطانوی وزیر خارجہ نے بالفور ڈیکلریشن میں فلسطین میں یہودیوں کے لئے قومی وطن کے قیام کے لیے برطانوی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور یہ کہ لارڈ روتھ شیلڈ کے نام ان کے 02 نومبر،1917ء کے خط میں بھی یہ شامل تھا۔ یہ  عہد پہلی جنگ عظیم کے آخری ایام میں چند عرب اور ترک غداروں  کی  بنا پر خلافت عثمانیہ کے انہدام کے دوران کیا گیا... اس عہد سے برسوں پہلے برطانیہ کی حمایت یافتہ صیہونی تنظیموں کے نمائندے ہرڈزل نے 18 مئی 1901 میں عثمانی خلیفہ کو ایک درخواست پیش کی تھی۔ اس درخواست میں خلافت عثمانیہ کے اس وقت کے مالی بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے فلسطین میں زمین دینے کے عوض خلافت کے خسارے کو بھرنے کے لئے بھاری رقوم کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن خلیفہ عبدالحمید کا ہرڈزل کو دیا جانے والا جواب نہایت ٹھوس اور دانشمندانہ تھا: میں فلسطین کی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ یہ میری ملکیت نہیں، بلکہ امت اسلامیہ کی ملکیت ہے۔ میری امت نے اس سرزمین کے لئے جنگیں لڑیں اور اسے اپنے خون سے سیراب کیا.. یہود اپنے لاکھوں اپنے پاس ہی رکھیں اور اگر کسی دن خلافت ختم ہو گئی تو وہ فلسطین کو بغیر کسی قیمت کے لے سکتے ہیں، لیکن میرے جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہو گا...!

 

خلیفہ گہری نظر، فراست اور دوراندیشی رکھتے تھے۔ وہ اپنے  نکتہ نظر میں نہایت مخلص تھے۔ خلافت کے انہدام کے بعد، فلسطین کو بغیر کسی مول کے یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا ! پس اس طرح فلسطین کو ہڑپ کرلینے اور اس کے لوگوں کی بے گھری اور قتل و غارت کی کہانی شروع ہوئی اور خلیفہ عبدالحمید رحمتہ اللہ علیہ کو جس چیز کا ادراک تھا، وہی ہوا۔ پس مغرب کی قیادت میں جن کی اس وقت سربراہی برطانیہ کر رہا تھا، اس وقت کے عرب اور ترک غداروں سے مل کر (1342ھ - 1924ء) کوخلافت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ خلافت کا خاتمہ ہی فلسطین میں اس شیطانی یہودی وجود کی تخلیق کا اصل سبب تھا۔

 

2۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اس معاملے میں شامل ہو گیا اور اس نے نومبر 1947 میں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 181 کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا... امریکہ نے یہودی صیہونیت کو اپنانے میں برطانیہ اور پورے یورپ سے مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں یہودی فیسٹیول آف لائٹس (حانوکا) کے تہوار کے استقبالیہ میں دیے گئے ایک خطاب میں کہا: صیہونی بننے کے لیے آپ کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے، اور میں ایک صیہونی ہوں"۔(whitehouse.gov؛ الشرق الاوسط،11/12/2023)۔ جب امریکی صدر بائیڈن نے الاقصیٰ فلڈ آپریشن کے بعد 18 اکتوبر2023ء کو تل ابیب کا دورہ کیا تو وہاں کے حکام سے ملاقات کی اور کہا: اگر 'اسرائیل' موجود نہ ہوتا تو ہمیں اسے ایجاد کرنا پڑتا... 'اسرائیل' ضرور بالضرور یہودیوں کے لیے دوبارہ ایک محفوظ جگہ بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس ہفتے امریکی کانگریس سے اسرائیل کے لیے ایک شاندار امدادی پیکج کا مطالبہ کریں گے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے کہ ہم ساتھ تو کھڑے ہوں اور کچھ بھی نہ کریں، نہ ہی آج، نہ ہی کل بلکہ کبھی بھی نہیں (الجزیرہ، 19 اکتوبر، 2023)۔

 

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکہ ہی ہے جو یہ جنگ لڑ رہا ہے، اور یہ کہ یہودی وجود بیرونی حمایت، خاص طور پر مسلسل امریکی حمایت کے بغیر جنگ جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ یہودی وجود اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک ایسا وجود ہے جو خود اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یہودی وجود خود اپنے ہاتھوں اپنی ناکامی کی داستان لکھ رہا ہے کیونکہ وہ لوگوں کے سہارے (مدد) کے علاوہ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، جیسا کہ القوی العزیز نے ارشاد فرمایا:

 

﴿ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ

یہ جہاں بھی پائے جائیں، ان پر ذلت مسلط کردی گئی ہے، سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے (آل عمران؛ 3:112)۔

 

انہوں نے اللہ کی رسی کو کاٹ دیا ہے اور اب ان کے لیے امریکہ اور یورپ کے لوگوں اور ان کے ایجنٹوں کی یعنی مسلم ممالک کے غدار حکمرانوں کی رسی ہی واحد سہارا ہے، وہ مسلم حکمران جو یہودیوں کی وحشیانہ جارحیت کے سامنے انگلی تک نہیں اٹھاتے، بلکہ ان حکمرانوں میں خود کو سب سے بہتر وہ گردانتا ہے جو بس کھڑا ہو اور شہداء اور زخمیوں کی گنتی کرتا رہے ! اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ یہودی وجود کو اپنے بنیادی اڈے کے طور پر دیکھتا ہے جس کے ذریعے وہ امت مسلمہ سے جنگ لڑ رہا ہے تاکہ وہ اس کے اتحاد اور اس کی ریاست یعنی خلافت کے قائم ہونے سے روک سکے۔

 

3۔ یہودی وجود 15اگست، 2005ء کو غزہ سے انخلاء کے بعد سے ایک سے زیادہ بار غزہ پر وحشیانہ جارحیت کر چکا ہے، یہاں تک کہ 7 اکتوبر 2023 کو آپریشن طوفان الاقصیٰ وقوع پذیر ہوا، جو دشمن کے لیے ایک دھچکا تھا جب مجاہدین نے اس کی چھاؤنیوں کے اندر تک گھس کر قلعہ بندی کر لی اور تقریباً 1,200 کے لگ بھگ اس کے سینکڑوں سپاہیوں کو ہلاک کر دیا۔ مجاہدین نے یہود کے کئی سپاہیوں کو گرفتار کر لیا۔ دشمن نے غزہ پر انتہائی حد تک وحشیانہ جوابی کارروائی شروع کر دی، جو 5 ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اس نے اس کی زیادہ تر عمارتوں کو تباہ کر دیا، ہسپتالوں کو نشانہ بنایا، مریضوں کو ہلاک کر دیا، اور انہیں زندہ بلڈوز کر دیا، اس کے ساتھ ہی ان سکول بھی مسمار کر دئیے جن کی طرف غزہ کے لوگوں نے بھاگ کر پناہ لی تھی۔ شہداء کی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کرگئی جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھی اور زخمیوں کی تعداد 70 ہزار سے زائد ہوگئی۔ دشمن نے فاقہ کشی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے امداد، خوراک، پانی اور بنیادی سامان کو لوگوں تک پہنچنے سے روک دیا تاکہ مجاہدین پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ قیدیوں کو رہا کر دیں۔ یہود کی جنگ حقیقی معنوں میں نسل کشی کی جنگ ہے ۔ مغرب، امریکی اور یورپی فریقوں اور ان کے پیروکاروں کی حمایت سے ہی یہود کو ایسا کرنے کی ترغیب دی گئی۔ مغرب کے رہنما غزہ پر جاری نسل کشی کی جنگ میں یہودی وجود کی مکمل حمایت کا اظہار کرنے کے لیے یہودی وجود سے بار بار ملاقاتیں کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔

 

عرب اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کی خاموشی سے بھی یہود کو جرأت اور حوصلہ افزائی ملی۔ غزہ کے لوگوں کی حمایت کے لیے فوجوں کو حرکت میں لانے کے بجائے، ان ممالک میں سے بعض نے مجاہدین کے حملے کی مذمت کی اور یہودی وجود کے ساتھ اپنے تعلقات ایسے جاری رکھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، اور تعلقات کو معمول پر لانے والے پرانے اور نئے ممالک نے دشمن کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا سلسلہ جاری رکھا، اور تعلقات منقطع نہیں کیے اور نارملائزیشن جیسے غداری پر مبنی عمل کو ترک نہیں کیا۔ انہوں نے یہودی وجود کے ساتھ معاہدوں اور تعاون کے معاہدوں کو منسوخ نہیں کیا، جیسے مصری حکومت کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ یا اردنی حکومت کے ساتھ وادی عربہ کا معاہدہ، اور اس کے علاوہ دیگر معاہدے۔ یعنی ان حکمرانوں نے جنگ کی کم سے کم حالت کا بھی خیال نہ رکھا۔ نیز یہ کہ ان میں سے کئی ممالک کے "اسرائیل" کے ساتھ تجارتی تعلقات، یہودی وجود کی وحشیانہ جارحیت کے بعد بھی قطعی متاثر نہیں ہوئے۔ 11جنوری، 2024ء کو ترکی کے وزیر ٹرانسپورٹیشن عبدالقادر اورالوگلو نے اعتراف کیا کہ (7 اکتوبر سے 31 دسمبر 2023 تک تقریباً 701 بحری جہاز ترکی کی بندرگاہوں سے 'اسرائیل' کے لیے روانہ ہوئے، یعنی اوسطاً روزانہ تقریباً 8 جہاز روانہ ہوئے" (الجزیرہ، 11 جنوری، 2024)۔ درحقیقت، ان میں سے کچھ ممالک نے غزہ کے خلاف جارحیت کا جواب دینے کے لئے نہ صرف غزہ کی حمایت کرنے کا کوئی اعلان نہ کیا بلکہ انہوں نے اپنے فوجیوں کی حمایت کرنے کے لئے یہودی وجود کے خلاف جنگ کا اعلان بھی نہ کیا۔ یہودی وجود نے شام میں ایرانی مقامات کو نشانہ بنا ڈالا اور اس کے بہت سے فوجیوں کو مار دیا، لیکن ایران نے اس کے خلاف کوئی اعلان جنگ نہ کیا! 

 

5۔ امریکہ اپنے بیانات کو دو ریاستی حل پر مرکوز رکھتا ہے، جبکہ وہ یہودی وجود کے لیے فکر مند ہے اور اس کے تمام سفاکانہ نوعیت کے اقدامات کا دفاع کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے، لیکن امریکہ کو خدشہ ہے کہ کہیں وہ اپنی اخلاقی حیثیت کو کھو نہ دے، گویا جیسے امریکہ کی کوئی اخلاقی حیثیت موجود ہو ! امریکہ کے صدر، بائیڈن نے کہا، ہمیں 6 اکتوبر کی سی حالت پہ واپس نہیں جانا ہے، یعنی کہ حماس اب 'اسرائیل' کومزید دہشت زدہ نہیں کر سکتی... اس کا مطلب یہ بھی ہےکہ جب یہ بحران ختم ہو جائے گاتو اس کے بعد کے لیے ایک واضح وژن ہونا چاہیے کہ اب کیا کرنا ہے، اور ہمارے خیال میں، یہ واضح وژن ' دو ریاستی حل' ہونا چاہیے… اس کا مطلب ہے کہ تمام فریقین کا اس وژن پر مرتکز ہو کر کوششیں کرنا‘‘ (CNN ویب سائٹ، 25 اکتوبر، 2023)۔ امریکی صدر نے 12 دسمبر، 2023ء کو یہ بھی کہا: (دنیا بھر میں ایک حقیقی تشویش یہ بھی پائی جاتی ہے کہ امریکہ اپنا اخلاقی جواز کھو رہا ہے... 'اسرائیل' کی حمایت کرنے کی وجہ سے‘‘ (الجزیرہ، 12 دسمبر، 2023))۔

 

تاہم، انہوں نے امریکہ کی پالیسی پر زور دیتے ہوئے کہا، ("یہ ایک ریڈ لائن ہے لیکن میں کبھی بھی اسرائیل کو نہیں چھوڑوں گا۔ اسرائیل کا دفاع اب بھی اہم ہے۔ اس لیے کوئی ریڈ لائن ایسی نہیں ہے (کہ جس میں) میں تمام اسلحہ کی فراہمی دوں تاکہ ان کے پاس اپنی حفاظت کے لئے آئرن ڈوم(Iron Dome) نہ رہے" (MSNBC چینل، 9 مارچ، 2024)۔

اس طرح بائیڈن کے انتخابی مخالف ٹرمپ سے قربت کی وجہ سے نیتن یاہو اور بائیڈن کے تعلقات میں تناؤ کے باوجود، امریکہ یہودی وجود کا زبردست حامی ہے۔

 

6۔ امریکہ یہودی وجود کو بھی دو ریاستی حل کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے سعودی حکومت کو یہودی وجود کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے ڈیووس کانفرنس میں کہا ("اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے تو سعودی عرب 'اسرائیل' کے ساتھ امن تعلقات قائم کر سکتا ہے..." (دی انڈیپنڈنٹ، 20 جنوری، 2024))۔ اس سے قبل سعودی حکومت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 21 ستمبر، 2023 کو امریکی فاکس نیوز نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا: "ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم 'اسرائیل' کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں"۔ 26 ستمبر، 2023 کو، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے سعودی سفیر، نائف السدیری کا رملہ میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر میں استقبال کیا، جو  یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پیش کش کے طور پر، فلسطین میں غیر معمولی سفیر اور غیرمقامی کمشنر اور القدس (یروشلم) میں قونصل جنرل ہونے کے بہانے، یہودی مشاہداتی مقام کے ذریعے مغربی کنارے میں پہنچے تھے!

 

دوم : اب ہم سوال کے دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں جو غزہ کی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی اور یہودی وجود کے متوقع منصوبوں کے بارے میں ہے:

 

1۔ دو ریاستی حل کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے غزہ کی پٹی کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دینا۔ اس حل کا مطالبہ امریکہ نے الفاظ سے کیا ہے، نہ کہ عمل سے، یعنی امریکہ الفاظ سے کھیل رہا ہے۔ بائیڈن چاہتا ہے کہ فلسطین کو ایک غیر مسلح ریاست بنا دیا جائے، یعنی یہ ایک خودمختار ریاست نہ ہو۔ (امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ کل یعنی جمعہ کو کہا کہ انہوں نے 'اسرائیلی' وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ دو ریاستی حل پر بات چیت کی، اور نیتن یاہو نے اس حل پر کوئی اعتراض نہیں کیا... یہ نوٹ کراتے ہوئے کہ اقوام متحدہ میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی اپنی کوئی مسلح افواج نہیں ہیں، بائیڈن نے اپنے بیان میں صحافیوں کو مزید کہا کہ دو ریاستی حل کے بہت سے نمونے موجود ہیں" (الجزیرہ، 4 جنوری، 2024))۔ یعنی بائیڈن ایک ایسی ریاست کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس کی اپنی کوئی مسلح افواج نہ ہوں! تاہم، یہودی وجود اس امریکی منصوبے سے بھی اتفاق نہیں کرتا۔ (اس کے بعد انادولو نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں، نیتن یاہو نے زور دیا کہ تل ابیب "یکطرفہ طور پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کرتا ہے" (انادولو، 18 فروری، 2024))۔ بہرحال، امریکی انتظامیہ کی طرف سے تجویز کردہ دو ریاستی حل کو کسی صورت بھی امریکی کارروائی کے بغیر سنجیدگی سے نافذ نہیں کیا جا سکتا... اور بائیڈن انتظامیہ آئندہ امریکی صدارتی انتخابات کی وجہ سے نیتن یاہو اور ان کی حکومت پر دباؤ نہیں ڈال رہی ہے، کیونکہ بائیڈن کو انتخابات میں یہودیوں کے ووٹوں اور انتخابی مہم کے لیے یہودی لابی کے پیسے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اس وقت جبکہ ان کے مدمقابل ٹرمپ ہے، جو یہودی وجود کی بھرپور حمایت کرتا ہے... جہاں تک یورپ اور برطانیہ کا تعلق ہے، تو وہ امریکہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جہاں تک مسلم ممالک کے حکمرانوں کے دو ریاستی حل کے مطالبے کا تعلق ہے، تو یہ ایک غداری ہے جو امریکہ کی متعین کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرتی ہے یعنی بغیر فوج اور بغیر خودمختاری کے ایک ریاست کا مطالبہ کرنا، جو کہ اپنی پابندی آپ کرنے کے مترادف ہے!

 

2- غزہ کی پٹی پر یہودی وجود کا دوبارہ قابض ہونا۔ قومی سلامتی کے وزیر بین گویرBen Gvirاور وزیر اقتصادیات سموٹریچ Smotrichاس منصوبے کے سب سے پرجوش حامیوں میں سے ہیں۔ ان دونوں انتہائی دائیں بازو کے وزراء کا کہنا یہ ہے کہ یہودی شہریوں کے ساتھ ساتھ قابض فوجیوں کو بھی غزہ کی پٹی کے اندر ہونا چاہیے اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول برقرار رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ (بین گویر، جو نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحاد میں چھوٹی قوم پرست جماعتوں میں سے ایک کی قیادت کر رہے ہیں، نے ایک کانفرنس میں کہا کہ یہودی آباد کاروں اور فوج کی واپسی ہی اس بات کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے 'اسرائیل' پر شروع کیے گئے کسی بھی تباہ کن حملے کو روکا جا سکے۔ اور 7 اکتوبر کے واقعہ کو دہرایا نہیں جائے گا۔ (رائٹرز، 29 جنوری، 2024))۔ تاہم، امریکہ اور یہودی عوام، دونوں ہی اس رائے کی حمایت نہیں کرتے (امریکی وزیر خارجہ، انتھونی بلنکن نے بدھ کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ 'اسرائیل'، جنگ کے خاتمے کے بعد جو وہ اس وقت حماس کے خلاف لڑ رہا ہے، غزہ کی پٹی پر "قبضہ نہیں کر سکتا"۔ انہوں نے مزید کہا: "حقیقت یہ ہے کہ تنازعہ کے اختتام پر کچھ عبوری دور کی ضرورت ہو سکتی ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے میں حکمرانی کے لیے مرکز کی حیثیت فلسطینی عوام کی ہو، اور ہم دوبارہ قبضہ ہوتا نہیں دیکھ رہے" (گارڈین؛ الحرہ، 8 نومبر، 2023)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے سے یہودی وجود کے لیے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور فوجی اور اقتصادی نقصان الگ ہوگا۔

 

غزہ پر حماس کے کنٹرول کا تسلسل رہنا۔ امریکہ، یورپ اور یہودی وجود نہیں چاہتے کہ حماس غزہ میں برسراقتدار رہے، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ 7 اکتوبر جیسے حملوں کے دہرائے جانے کا باعث بنے گا۔ بلنکن نے ٹوکیو میں صحافیوں کو بتایا: "غزہ ... حماس کے زیر انتظام نہیں چل سکتا، کیونکہ اس کا مطلب محض 7 اکتوبر جیسے واقعہ کو دہرانے کی دعوت دینا ہے" (Stategov؛ گارڈین، 8 نومبر، 2023)۔ گیلنٹ نے کہا، "جنگ کے بعد، حماس غزہ کی پٹی کو کنٹرول نہیں کرے گی… بلکہ تل ابیب غزہ کو ایک بین الاقوامی ادارے سے کنٹرول کرنے کی تیاری کر رہا ہے" (انادولو، 18 دسمبر، 2023)۔

 

غزہ کی پٹی میں سکیورٹی کو یہودی وجود کی فوج سے ایک عالمی فورس کی طرف منتقل کرنا۔ خاص طور پہ کچھ امریکی سیاست دانوں کی طرف سے جس بات پر بحث کی گئی، وہ یہ کہ غزہ میں بین الاقوامی فورسز کی موجودگی ہو جن میں عرب ممالک اور دیگر ممالک کی افواج شامل ہوں۔۔۔۔ اور یہ بات میڈیا سے شائع ہوئی...

 

(وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، جن عرب ممالک نے 'اسرائیل' کے ساتھ امن کے معاہدوں یا معمول پر لانے کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ان کو غزہ کے لیے سکیورٹی فورس فراہم کرنے یا اس کی نگرانی کرنے کے لیے قائل کرنا، لیکن اس کے لیے کچھ ممالک یا تنظیموں کو انتظامی ذمہ داریاں سنبھالنے اور سیکورٹی کی نگرانی کی ضرورت ہوگی۔ اخبار کہتا ہے کہ کچھ عرب پڑوسی ہچکچا رہے ہیں... (الحرہ، 3 نومبر، 2023))۔ یہ بحث دوبارہ دہرائی گئی اور رشیا ٹوڈے نے 4 دسمبر2023 کو اس موضوع کو دوبارہ اس طرح شائع کیا: "واشنگٹن غزہ کی پٹی میں سیکورٹی کی 'اسرائیلی' فوج سے بین الاقوامی فورس کو منتقلی کی حمایت کرتا ہے، جسے شاید کچھ عرب ممالک نے تشکیل دیا ہو، لیکن 'اسرائیل' اس متنازعہ علاقے میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی کے منظر نامے سے اتفاق نہیں کرتا، اور 'اسرائیل' کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی تنظیم کی صلاحیت پر بھروسہ نہیں ہے۔

 

مغربی کنارے کے ساتھ اتحاد کے بغیر غزہ میں سول انتظامیہ کو فلسطینیوں کے حوالے کرنا، لیکن سکیورٹی بہرحال یہودی وجود کے ہاتھ میں رہے گی، جیسا کہ مغربی کنارے میں ہے۔ الجزیرہ نے 27 فروری، 2024 کو شائع کیا کہ 23 فروری 2024 کو، یہودی وجود کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کے لیے "آئندہ دن" کا منصوبہ منی وزارتی کونسل برائے سلامتی اور سیاسی امور کو پیش کیا۔ (بینجمن نیتن یاہو نے اپنی حکومت کے ارکان کے سامنے جو منصوبہ پیش کیا تھا اس میں غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے بہت سی تفصیلات شامل تھیں۔ سکیورٹی کے شعبے میں اس کے سب سے اہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ: 'اسرائیل' کسی بھی وقتی پابندی کے بغیر غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں فوجی اور سکیورٹی کارروائی کرنے کی آزادی کو برقرار رکھے گا اور 1948 کے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ اپنی سرحدوں کے اطراف غزہ کی پٹی کے اندر ایک سکیورٹی بیلٹ قائم کرے گا... نیز اس کے علاوہ، 'اسرائیل' غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کر دے گا، اور اس سے کسی بھی قسم کی فوجی صلاحیت کو ختم کر دے گا، سوائے اس کے کہ عوامی سطح پر تحفظ کو برقرار رکھنے کے لیے جس قدر ضرورت ہو۔...)

 

امریکی اور یہودیوں کے منصوبوں کے سابقہ امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، سب سے زیادہ امکان یہی ہے کہ جس پر عملی جامہ پہنانے کی وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ اوپر (5) نمبر پوائنٹ میں بیان کیا گیا ہے؛ یعنی کہ غزہ، مغربی کنارے کے ساتھ متحد نہ ہو، بلکہ ان میں سکیورٹی اور فوجی طریقہ کار ایک جیسے ہوں: ('اسرائیل' غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں بغیر کسی وقتی پابندی کے فوجی اور سکیورٹی کارروائی کی آزادی کو برقرار رکھے) خاص طور پر تب جبکہ یہودی مغربی کنارے میں اس منصوبے پر عمل درآمد کر رہے ہوں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے یہ منصوبہ امریکی حکام کے سامنے پیش کیا تھا اور ممکن ہے کہ اسے ان کی منظوری مل گئی تھی (یہ دعویٰ کیا گیا کہ نیتن یاہو نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس نے جو منصوبہ تیار کیا ہے وہ مشرق وسطیٰ کے مستقل حل کے لیے امریکی منصوبے سے مطابقت رکھتا ہو، اور یہ کہ اس منصوبے کے بارے میں اسٹریٹجک امور کے وزیر، رون ڈرمر کے ذریعے، امریکہ سے مشاورت کی گئی تھی، جو 'اسرائیلی' جنگی منی کابینہ کے رکن ہیں، اور ان کے واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔(NTV، 31 جنوری، 2024)، یعنی امریکہ، نیتن یاہو کے منصوبے سےپہلے سے ہی آگاہ تھا۔

 

جہاں تک بائیڈن کے دو ریاستی حل کے بارے میں بیان دہرانے کا تعلق ہے، وہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بلکہ، جیسا کہ ان کے پچھلے بیان میں کہا گیا ہے، جو کہ پوائنٹ (1) میں ہے کہ (یہ نوٹ کراتے ہوئے کہ اقوام متحدہ میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی اپنی کوئی مسلح افواج نہیں ہیں، بائیڈن نے اپنے بیان میں صحافیوں کو مزید کہا کہ "دو ریاستی حل کے بہت سے نمونے موجود ہیں..." (الجزیرہ، 4 جنوری، 2024))۔ بائیڈن نے غزہ کی پٹی کے غیر مسلح کیے جانے کی طرف اشارہ کیا، اور اسے دو ریاستی حل سے قبل ہی اس عبوری مرحلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جیسا کہ نکتہ (2) میں اس کے بیان میں ہے کہ: ("حقیقت یہ ہے کہ تنازعہ کے اختتام پر کسی عبوری دور کی ضرورت ہو سکتی ہے …" (گارڈین؛ الحرہ، 8 نومبر، 2023))۔

 

سوم : وہ حقیقی شرعی حل جس پر عملدرآمد کرنا لازم ہے: 

 

1۔ مندرجہ بالا باتوں پر غور کرنے کے بعد امریکی اور یہودی وجود کے منصوبوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کو غیر مسلح بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور یہ کہ ان میں سکیورٹی کی خودمختاری یہودیوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ چاہے یہ کام ایک ریاست کے نام پر ہو یعنی خواہ وہ ان میں مرحلہ وار الحاق کے ذریعے ہو جیسا کہ امریکہ چاہتا ہے، یعنی مغربی کنارہ عبوری مرحلے میں غزہ سے الگ رہے اور پھر غزہ اور مغربی کنارے کا الحاق کر دیا جائے، جس میں کوئی فوج نہ ہو۔ یا پھر چاہے یہ کام ویسے ہو جیسا کہ یہودی ریاست چاہتی ہے، یعنی کہ شروع میں اور آخر میں غزہ کو مغربی کنارے سے الگ رکھا جائے، اور دونوں مرحلہ پر کوئی افواج نہ ہوں اور بہرحال ان علاقوں میں حقیقی خودمختاری یہودیوں کے پاس رہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اور یہودی جو منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ زہرآلود ہے اور اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین کے ساتھ دھوکا ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ یہود اور امریکہ اس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کیونکہ وہ تو دشمن ہی ہیں، لیکن کیا عجب بات ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں میں سے کوئی بھی اپنی افواج کو حرکت میں لانے کے لئے پہل نہیں کر رہا، خاص طور پر فلسطین کے خطے کے حکمران، تاکہ افواج غزہ، اس کے لوگوں، الاقصیٰ اور اس کے اطراف کی مدد کریں، یہودی وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور پھر پورے فلسطین کو اس کے لوگوں کو لوٹا دیں۔ کیا وہ جنہوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کیا اور اس کے لوگوں کو وہاں سے نکال دیا ہو وہ اس لائق نہیں کہ مسلمانوں کی افواج ان سے لڑیں اور ان کو وہاں سے اسی طرح نکال دیں جس طرح انہوں نے اس کے لوگوں کو نکالا تھا ؟

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ

اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو( البقرۃ؛ 2:191)

 

حکمرانوں کو اس کا احساس کیسے نہیں ہو رہا؟ بلکہ ان کی ذلت نے ان پر قابو پالیا ہے، کیونکہ وہ کافر استعمار بالخصوص امریکہ کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ اپنے ناجائز اقتدار کو بچانے کے لیے اس کے کسی حکم سے انکار نہیں کرتے۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُون﴾

اللہ ان کو ہلاک کرے، یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں (سورۃ المنافقون: 4)

 

2۔ اس جنگ نے دو اہم باتیں ظاہر کیں ہیں : پہلی یہودیوں کی کمزوری اور ان کی رسوائی، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے:

 

﴿ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ

ان پر ہر جگہ ذلت مسلط کردی گئی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں (آل عمران؛ 3:112)

 

انبیاء کے بعد اللہ کی پناہ والا معاملہ تو ختم ہو چکا اور اب ان یہود کے پاس سوائے لوگوں کی پناہ یعنی امریکہ اور اس کے پیروکاروں کی پناہ کے کچھ بھی باقی نہیں ہے اور وہ ایک ایسی قوم ہیں جو جنگ کرنے یا فتح حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔۔ اور دوسری مسلم ممالک کے حکمرانوں کی غداری ہے، کیونکہ جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ اس کو دیکھ رہے ہیں اور ان میں جو اپنے آپ کو بہتر گردانتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ فقط شہداء اور زخمیوں کی گنتی کرتے رہتے ہیں۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ﴾

بہرے، گونگے، اندھے ہیں ،پس وه نہیں لوٹیں گے (البقرۃ؛ 2:18)

 

یہ دونوں باتیں ،مسلم افواج میں موجود مخلص اہل قوت کو پکار رہی ہیں کہ وہ فلسطین پر قابض یہودیوں سے قتال کرنے کے، اللہ کی طرف سے عائد، فرض کو پورا کرنے کے لیے عام تحریک کا اعلان کریں۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ

اور کافروں کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو، اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی ویسی ہی تکلیف پہنچتی ہے جیسی تمہیں پہنچتی ہے ،اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے (النساء؛4:104)

 

اس طرح آپ ان کے وجود کو مٹا دیں اور یہ بات اللہ کے نزدیک ان یہودیوں کے جنگ جیت جانے سے زیادہ آسان ہے اور اس طرح اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيراً

پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا کہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں داخل ہو گئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہوجائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اُسے تباہ کردیں (بنی اسرائیل؛17:7)

 

لہٰذا غزہ میں اپنے بھائیوں کا ساتھ دینے کے لیے نکلیں، اور اگر مسلم ممالک میں جبر پہ قائم حکومتیں آپ کے خلاف کھڑی ہو جائیں تو ان کو ہر طرح سے روند ڈالیں... اور ان کی جگہ پہ اللہ کا حکم یعنی نبوت کے طریقے پر خلافت کو قائم کریں، جو کہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے،

 

«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ سَكَتَ»

"پھر ظلم و جبر کی حکمرانی کا دور ہو گا اور یہ بھی تب تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی ،پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے"(مسند الإمام أحمد)۔

 

اس کے بعد خلیفہ، اس کے معاونین اور اسلام کے سپاہی، اعلیٰ ترین عہدے سے لے کر ادنیٰ درجے تک، سب اللہ اکبر پکارتے ہوئے ایک فتح سے دوسری فتح کی طرف بڑھیں گے اور امت ان کے ساتھ اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرے گی۔ وہ اپنے رب کی نصر کی بدولت مضبوط اور اپنے دین کی بدولت عزت دار ہوں گے ، اور پھر کسی دشمن کو، اسلام کی سرزمین پر کوئی ریاست قائم کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

اور اس دن مؤمنین خوش ہو جائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہےمدد دیتاہے اور وہ غالب اور مہربان ہے (الروم؛ 30:4،5)

 

12 رمضان المبارک 1445ھ

بمطابق، 22 مارچ، 2024ء

Last modified onجمعہ, 05 اپریل 2024 20:41

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک